
خُداوند یِسُوؔع مسِیح کی پَیدائش اور اس پَیدائش کا اعلان
(پہلا حِصّہ)
کلامِ مُقدّس کے مُطابِق جب وقت پُورا ہو گیا تو خُدا نے اپنے بیٹے کو بھیجا جو عَورت سے پَیدا ہُؤا، عمانوایل، ابدیت کے خُدا نے وقت اور جگہ میں قدم رکھا۔ لامحدُود خُداوند، ہمہ جانی خُداوند ایک جِسم تک محدُود ہُوا۔ وہ چھوٹی سی جان اِس نوجوان والد کے بازوؤں میں آگئی۔ لُوقا ہمیں یہ بتانے میں بہت مُحتاط ہے کہ اُس نے اپنے پہلوٹھے بیٹے، جِسکے لئے یُونانی میں لفظ ہے "Prototokon" پہلوٹھے بیٹے کو جنم دیا۔ وہ "Monogens" کا لفظ اِستعمال نہیں کرتا جِس کا مطلب ہے اِکلوتا بیٹا۔ اُس کے بعد یُوسُؔف اور مرؔیم کے تعلُّقات معمُول کے مُطابِق تھے جیسے کِسی دُوسرے شوہر اور بیوی کے ہوتے ہیں اور اُن کے اَور لڑکے بھی تھے اور اُن کی لڑکیاں بھی تھیں۔ متّی 12ب میں ہمیں یِسُوؔع کے بھائیوں سے مُتعارف کروایا جاتا ہے۔ 13ب 55آ میں اُن کے نام ہمارے لئے لِکھے گئے ہے۔ یِسُوؔع مسِیح کے بھائی جو یُوسُؔف اور مرؔیم کے ہاں پیدا ہُوئے تھے، وہ یعقُوؔب اور یُوسُؔف اور شمعُوؔن اور یہُوداؔہ تھے۔ 56آ میں اُس کی بہنوں کا بھی ذِکر ہے۔ پِھر لِکھا ہے کہ "۔۔۔اُس نے اُسے کپڑے میں لپیٹا۔" کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ یہ کیوں لِکھا گیا ہے؟ کیونکہ یہ عام بات تھی، یہ معمُول تھا۔ یہ ہر دُوسری پَیدائش کی طرح کی پَیدائش تھی۔ ایک یہُودِی ماں عام طور پر ایسا ہی کِیا کرتی تھی۔ آپ پیدا ہونے والے بچّوں کے بارے میں تاریخ میں پائے جانے والے اشاروں سے یہ جان سکتے ہیں۔ وہ اُنہیں کپڑوں میں لپیٹ لیتے۔ رواج یہ تھا کہ کپڑے کی لمبی لمبی پٹیاں لے کر بچّے کے بازُو اور ٹانگیں لپیٹتے اور پِھر چھوٹے سے جِسم کو مضبُوطی سے لپیٹ لیتے۔ یہ اُسے گرم رکھنے کے لئے تھا۔ یہ اُسے محفُوظ رکھنے کے لئے بھی تھا۔ میرا مطلب ہے کہ ماں کے رحم میں چھوٹا بچّہ سِمٹا ہُوا اور محفُوظ ہوتا ہے پِھر اچانک سے وہ کُھلی فِضا میں آ جاتا ہے، اور کوئی چیز بھی اُسے چھُو نہیں رہی ہوتی، اور وہ اپنے چھوٹے چھوٹے بازُو اور ٹانگیں اِدھر اُدھر تیزی سے چلا رہا ہوتا ہے۔ تعّجُب نہیں کہ وہ رو رہا ہوتا ہے۔ یہ اُس کے لئے جذباتی تجربہ ہے۔ وہ اِس چھوٹے سے بچّے کو فوراً لپیٹ دیتے اور وہ یہ بھی مانتے تھے کہ اُنکے بازُو اور ٹانگیں سمیٹنے اور اُنکے چھوٹے سے جِسم کو سمیٹنے سے وہ چھوٹا بچّہ محفُوظ رہتا اور وہ یہ بھی مانتے تھے کہ عُمر کے اِبتدائی حِصّے میں اُن کی ہڈیوں کو سیدھے رکھنے میں مدد مِلتی ہے۔ بات یہ ہے کہ مرؔیم نے اِس بچّے کے ساتھ کِسی بھی دُوسرے بچّے کی طرح سلُوک کِیا۔ یہ عام بچّوں کی طرح ایک بچّہ تھا۔ جِسمانی طور پر کِسی بھی دُوسرے بچّے کی طرح لگتا تھا۔ جِسمانی طور پر اُس کے ساتھ کِسی بھی دُوسرے عام بچّے کی طرح سلُوک کِیا گیا۔ کوئی شاہی لباس نہیں، کوئی نمائشی لباس نہیں، اُس کے سر پر کوئی تاج نہیں تھا۔ چرواہوں کو دی گئی خُوشی کی بشارت: یِسُوؔع مسِیح کی پَیدائش کا اعلان سب سے پہلے یہُودِی مُعاشرے کے نِچلے ترین سمجھے جانے والے طبقے سے کیا گیا۔ وہ واقعی کم ترین حیثیت رکھتے تھے۔ نئے عہد نامہ کے زمانے سے جُوں جُوں وقت آگے بڑھتا گیا، اور زیادہ سے زیادہ لوگ فریسِیوں کی سخت قانُونی روایات کی زد میں آنے لگے تو چرواہے زیادہ سے زیادہ حقیر سمجھے جانے لگے۔ اگر آپ اُس وقت سے لے کر اگلے تقریباً سو سالوں کا یہُودِی ادب پڑھیں تو چرواہے حقیر سے حقیر تر بنتے گئے۔ در حقیقت، اُسکے تھوڑے ہی عرصے بعد اُنہیں ناقابلِ اعتماد، ناقابلِ بھروسہ، نادان لوگوں کے طور پر دیکھا جانے لگا، جِن پر زیادہ بھیڑیں چوری کرنے اور ہر طرح طرح کی غیر قانُونی حرکتیں کرنے کا شُبہ رکھا جاتا تھا۔ اب وہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ مُعاشرے میں اعلیٰ درجہ رکھنے والوں کے قریب بھی نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ آپ کے لئے ایک حیران کُن بات ہو کیونکہ آپ کی ساری زندگی شاید یہ تصوّر کرتے ہُوئے گُزری ہوگی کہ یہ چرواہے کُچھ خاص لوگ تھے۔ دراصل، وہ تمام لوگوں میں کم ترین حیثیت رکھتے تھے۔ کیا یہی بات نہیں ہے؟ کیا یہ بالکُل ایسا نہیں ہے کہ خُدا مذہبی اشرافیہ کو نظر انداز کرے، "مذہبی اسٹیبلشمینٹ" کو نظر انداز کرے، ایسے ریاکاروں کو ناگوار لوگ جانے جو سمجھتے ہوں کہ وہ اپنی کوشِشوں سے خُدا کے ساتھ رِشتے کو اُستوار کر سکتے ہیں؟ سو یہ اعلان، جو دُنیا کی تاریخ میں اب تک کا سب سے بڑا اعلان ہے، سب سے کم تر، عاجز ترین، چرواہوں میں کِیا گیا۔ اور کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ چرواہوں کو حقیر سمجھ لیں، خُود یِسُوؔع اپنے آپ کو کیا اچّھا قرار دینے میں خُوش تھا؟ چرواہا۔ اِس کام میں بذاتِ خُود کوئی بُرائی نہیں ہے۔ لیکن وہ اِسرائیل کے مُعاشرے اور ثقافت کے سب سے کم اور عام حیثیت کے لوگ تھے۔ میرا خیال ہے کہ خُداوند نے اِس اعلان کے لئے جو چرواہے مُنتخب کئے وہ شاید وہ چرواہے تھے جو سچّے اور زندہ خُدا پر یقین رکھتے تھے۔ وہ شاید پرہیزگار تھے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اُن لوگوں میں شامل ہُوں جن کا آیت 25 میں "اِسرائیل کی تسلّی کے مُنتظر" کے طور پر ذِکر کِیا گیا ہے۔ یعنی وہ جو مسِیح کی تلاش میں تھے، وہ اِسرائیل کو چُھڑانے والے نجات دہندہ کی تلاش میں تھے۔ کیونکہ 20آ میں جب اُنہوں نے جا کر بچّے کو دیکھا، اور اُنہیں احساس ہُوا کہ کیا ہُوا ہے، تو 20آ کہتی ہے کہ چرواہے جَیسا اُن سے کہا گیا تھا وَیسا ہی سب کُچھ سُن کر اور دیکھ کر خُدا کی تمجِید اور حمد کرتے ہُوئے لَوٹ گئے۔ مُمکن ہے کہ وہ اِس بات کی توقّع میں زِندگی بسر کر رہے تھے۔ یہ عین مُمکن ہے کہ اگرچہ وہ مُعاشرتی طور پر نِچلے درجے پر تھے، لیکن رُوحانی طور پر اعلیٰ ترین مقام پر ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ پرہیزگار ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ لوگ ہوں جو اِسرائیل کی رہائی کے مُنتظر تھے۔ ورنہ خُداوند اُن کو یہ کیوں بتاتا؟ اور یقیناً جب اُنہوں نے یہ پیغام سُنا تو وہ جوش سے بھر گئے اور فوراً بیت الحم کو روانہ ہو گئے۔یصر اَوگُوستُس اور مِصر کے ساتھ اُس کی جنگ اور حُکمرانی اور باقی سارے مُعاملات یسُوؔع مسِیح کی پَیدائش سے کیا تعلُّق رکھتے ہیں۔ یہ ہم آنے والے پیغام میں سیکھیں گے۔۔