
:(مُقدس یوُسُف (دوسرا حصہ
سو مریم اِن باتوں سے بخوُبی واقِف تھی۔ اور جب وہ حامِلہ ہوئی تو وہ اپنے حمل کا سبب بھی جانتی تھی۔ لیکِن یوُسُف کو اِسکا عِلم نہیں تھا سو جب اُسکو اِن باتوں کا پتہ چلا تو اُسکو شدیِد جھٹکا لگا۔ وہ تو مریم کے کرِدار کی خوُبِیوں کو جانتا تھا۔ وہ مریم کی راستباز طرزِ زِندگی کا قائل تھا۔ وہ جانتا تھا کہ مریم کی خُدا کی نظر میں کیا قدر و منزِلت ہے۔ وہ مریم کو جانتا تھا۔ اس لیے یہ بات اُسکی سمجھ سے باہر تھی۔ وہ استِثنا 22ب میں لکھے قانوُن سے بھی بخوُبی واقِف تھا کہ اُن دِنوں اگر کوئی خاتوُن شادی کے عہد سے باہر حامِلہ پائی جاتی تو اُسکی سزا موت تھی۔ یوُسُف کا دِل دہل چُکا تھا۔ وہ مریم سے محبت کرتا تھا اور دُنیوی طور پر مریم کے پاس ایسا کوئی طریِقہ نہیں تھا جِس کی مدد سے وہ اپنے کِردار کی ساکھ کو محفوظ رکھ پاتی۔ سو خُدا کی بابرکت روُح نے کلامِ اقدَس کے مُقدس اوراق میں اُسکے پاکیِزہ کرِدار کی تصدیِق اور حِفاظت فرمائی ہے۔ تاکہ مریم کا نام بدنام نہ ہو۔ یوُسُف اُن حالات و واقعات کو سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ اُسکی چھوٹی سی دُنیا تباہ ہو کر رہ گئی تھی۔ یوُسُف ایک سچا اور راستباز شخص تھا جو بے شک مریم سے گہری محبت رکھتا اور وفادار تھا، اور اُس دِن کے اِنتظار میں تھا جِس میں وہ دونوں منگنی کے عرصہ کے اِمتحان میں اپنی وفاداری اور پاکیِزگی کا ثبوت دینے کے بعد شادی کے بندھن میں بندھ کر باقاعدہ طور پر اکٹھے ہونگے۔ یوُسُف کے بارے متی 1ب کی 19آ میں لِکھا ہے "پس اُسکے شَوہر یُوسُؔف نے جو راستباز تھا اور اُسے بدنام کرنا نہیں چاہتا تھا اُسے چُپکے سے چھوڑ دینے کا اِرادہ کِیا۔" یوُسُف کو اب اسکا سامنا کرنا تھا۔ اُسکے لئے یہ مُعجزہ غیر واضح اور اُسکی سمجھ سے بالاتر تھا۔ وہ شدیِد بوکھلاہٹ کا شِکار تھا۔ اِس بات سے کیا مُراد ہے کہ یوسف ایک راستباز شخص تھا؟ اِس سے مُراد یہ ہے کہ وہ ایک راستباز یہوُدی تھا۔ جو پُرانے عہد نامے کا سَچا مُقدس اور خُدا ترس شخص تھا۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ایسا شخص کیا سوچے گا؟ وہ یہ سوچے گا کہ "میں اِس حالت میں اِس عورت سے شادی نہیں کرسکتا۔" اُس نے خُدا کے اُصولوں کی خِلاف ورزی کی ہے۔ اگرچہ میں اُس کی پرواہ کرتا ہوں، اگرچہ میں اِس ماجرے کو سمجھ نہیں پا رہا ہوں، حالانکہ میرے لئے یہ سب کچھ ایک مُعمہ ہے، بطور ایک راستباز، مُجھے شریِعت کے تقاضوں کو پوُرا کرنا ہے۔" اُسے راستباز کہنا، یوُسُف کو اُسی طبقے کا حِصہ بناتا ہے جِس طبقے میں زِکریاہ اور الیِشبع آتے تھے۔ اُنکے بارے میں بھی لِکھا تھا "۔۔۔وہ دونوں خُدا کے حضُور راستباز اور خُداوند کے سب احکام و قوانِین پر بے عَیب چلنے والے تھے" وہ اُسکو شمعوُن کے طبقے کا حِصہ بناتا ہے جِس سے مُتعلِق بائبل میں لِکھا ہے کہ "وہ آدمی راستباز اور خُدا ترس۔۔۔تھا"۔ یوُسُف ایک سچا خدا ترس یہوُدی تھا جو اِس بات سے بخوُبی واقِف تھا کہ اُسے خُدا کے قوانِین کی فرمانبرداری کرنا ہے اور اُسکا قانون کہتا ہے کہ اگر کوئی شادی کے عہد میں آنے سے پہلے ایسا کچھ کرے گا تو اُسے نتائج بھگتنا ہوں گے۔ یوُسُف واقعی ایک مُقدس شخص تھا۔ اُسکے ذہن میں پہلا خیال تو اُسکی راستبازی کی وجہ سے آیا لیکن دوُسرا خیال مریم کے ساتھ اُسکی محبت کی وجہ سے آیا چُنانچہ وہ اُسے نِشانِ عِبرت بنانا نہیں چاہتا تھا۔ حالانکہ وہ ایسا کر سکتا تھا۔ اُس دور میں اُسکے پاس دو راستے تھے جِنکا وہ اِنتخاب کر سکتا تھا۔ اگر یوُسُف اُس دور میں زِندہ ہوتا جِس میں استثناء کی کِتاب لِکھی گئی تھی تو یقیناً اُسکو شریعت ہی کی پاسداری کرنا پڑتی۔ لیکِن یہوُدیوں کی خدا کے قوانین کو ماننے اور لاگوُ کرنے میں نرمی کی وجہ سے اب وہ اِس نہج کو پہنچ چُکے تھے کہ اُنہوں نے خُدا کے قوانیِن کو اپنے قوانیِن سے بدل ڈالا تھا اور اِسی وجہ سے اُنکا مُلک اِس قدر مُشکِل میں تھا۔ حالانکہ خُدا کے قوانیِن تو روک تھام کے لیے ہی تھے۔ اور اُن نرم قوانیِن کے دور میں یوُسُف دو باتوں میں سے ایک کا اِنتخاب کر سکتا تھا۔ ایک تو یہ کہ وہ عوامی عدالت میں مریم پر زِنا کاری کا مُرتکِب ہونے کا اِلزام لگاتا جِسکی وجہ سے مریم کو شرمِندگی کا سامنا کرنا پڑتا، اُس پر مُقدمہ چلتا، اور سب کے سامنے اُسکی کِردار کشی ہوتی اور اُسے سب کے سامنے سزا سنائی جاتی۔ دوُسرا راستہ یہ تھا کہ وہ مریم کو چپکے سے چھوڑ دیتا۔ دونوں فریقین دو یا تین گواہوں کی موجودگی میں نجی طلاق نامہ لکھ سکتے تھے جیسا کہ استثناء 24ب میں طلاق دینے کے بارے میں لکھا ہے۔ اس میں کوئی عدالتی کارروائی نہ ہوتی اور نہ ہی کسی کو اسکی کان و کان خبر ہی ہوتی۔ یہ خُدا کا وضع کردہ طریِقہ کار تو نہ تھا لیکِن یوُسُف کے دور میں یہوُدیِوں کی طرف سے قوانین میں نرمی کی وجہ سے ایسا کرنے کی اِجازت تھی۔ ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ "چھوڑ دینے" کے لئے نئے عہد نامہ میں لفظ "اپولوُ" اِستعمال ہوُا ہے جِسکے معنی ہیں "طلاق دینا"۔ یوُسُف کو اِس لیے طلاق دینا ضروری تھا کِیوُنکہ منگنی قانوُنی طور پر شادی کی حیثِیت رکھتی تھی۔ اور اُس نے مریم کو بغیر بدنام کیے، چُپکے سے چھوڑ دینے کا اِرادہ کِیا۔ وہ ایسا نہیں کر سکتا تھا کہ مریم کو نِشانِ عِبرت بناتا۔ یوُسُف خود بھی عوام کے سامنے شرمندہ نہیں ہونا چاہتا تھا۔ سو یوسف نے مریم کو چُپکے سے چھوڑ دینے کا اِرادہ کیا۔ لیکن وہ ایسا نہیں کر پا رہا تھا۔ وہ اس بات کو عملی جامہ نہیں پہنا پا رہا تھا۔ سو 20آ میں لکھا ہے "وہ اِن باتوں کو سوچ ہی رہا تھا کہ۔۔۔"اب سنئیے۔ وہ ابھی ناصرت میں ہی ہیں. اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ وہ رات کو سونے کے لیے اپنے بستر پر چلا گیا۔ وہ دھیان و گیان کرتا رہا۔ وہ ساری رات اس بات پر غور و فکر کرتا رہا کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔ اور اسی غور و فکر کے دوران اسے نیند آ گئی۔ اور خداوند کے فرِشتے نے اسے کہا "اَے یُوسُؔف اِبنِ داؤُد! اپنی بِیوی مرؔیم کو اپنے ہاں لے آنے سے نہ ڈر کیونکہ جو اُس کے پیٹ میں ہے وہ رُوحُ القُدس کی قُدرت سے ہے۔" اب میں آپ کو 21آ سے مُتعلِق کُچھ بتانا چاہتا ہوں۔ لکھا ہے "اُسکے بیٹا ہوگا۔" اگر آپ غور کریں تو فرِشتے نے یہ نہیں کہا کہ "یوُسُف تیرے بیٹا ہوگا۔" مریم نے بیٹے کو جنم دیا۔ اُسکا نام یسوع ہوگا کِیوُنکہ وہی اپنے لوگوں کو اُنکے گُناہوں سے نجات دیگا۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ بائبل مُقدس اس بارے میں بڑی محتاط ہے کہ یوُسُف کو یسوُع کا جسمانی باپ نہ کہے۔ مثلاً متی 2ب 13آ کیمُطابِق لکھا ہے "۔۔۔اُٹھ۔ بچّے اور اُس کی ماں کو ساتھ لے کر مِصر کو بھاگ جا۔۔۔" ہمیشہ صِرف ماں ہی کا ہی ذِکر کِیوں کیا جاتا ہے؟ فرِشتے نے یہ کِیوں نہیں کہا کہ"اٹھ، اپنے بچے اور بیوی کو لیکر۔۔۔" کیونکہ ہمیشہ سے یوُسُف کو جِسمانی باپ ہونے سے الگ رکھا جاتا ہے۔ ہمیشہ سے صِرف ماں اور بچے کا ہی ذِکر کِیا جاتا ہے اور یوُسُف کا کبھی بطور جسمانی باپ ذِکر نہیں کِیا جاتا۔ یہ کُنواری سے پیدائش کو ظاہر کرتا ہے۔ 24آ میں لکھا ہے "پس یُوسُؔف نے نِیند سے جاگ کر وَیسا ہی کِیا جَیسا خُداوند کے فرِشتہ نے اُسے حُکم دِیا تھا اور اپنی بِیوی کو اپنے ہاں لے آیا۔" یسوُع کی صلِیبی موت کے وقت تک شاید یوُسُف مر چُکا تھا کیونکہ اُس سارے واقعہ میں اُسکا کہِیں بھی ذِکر نہیں مِلتا۔ ہم یوسف کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے لیکن ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ وہ ایک بہت ہی شاندار شخصیت کا مالک ہوگا کیونکہ خدا اپنے اکلوتے بیٹے کو کسی ایسے شخص کے گھر پرورش کے لئے نہیں بھیجے گا جو ایک محبت رکھنے والا باپ نہ ہو۔