
:(مریِم کو دِیا جانے والا الہیٰ پیغام (دوسرا حِصہ
یہاں ایک 13-14 سالہ نوجوان ہے جِسکی رگوں میں شاہی خون دوڑتا ہے. یوُسُف کا نسب نامہ متی کی اِنجیل کے 1باب میں قَلمبنَد کیا گیا ہے جو کہ اِس بات کا ثبوُت ہے کہ یوُسُف داؤد کی نسل سے تھا. متی اپنے اِنجِیلی بیان کا آغاز ہی اِس بات سے کرتا ہے کہ "یِسُوع مسِیح اِبنِ داؤُد اِبنِ ابرہاؔم کا نسب نامہ۔" اگر یسوُع مسیِح اِبنِ داؤد تھا تو یقیناً اُسکا باپ بھی اُسی نسل سے ہو گا. حالانکہ یوُسُف یسوُع مسیِح کا فِطرتی یا جِسمانی باپ نہیں تھا. لیکِن کیونکہ وہ داؤد کی نسل سے تھا اِس لئے یوُسُف کے ذریعے سے یسوُع بھی داؤد کی نسل سے تھا کیوُنکہ یسوُع قانوُنی اعتبار سے یوُسُف کا بیٹا تھا۔ سو یسوُع شاہی خاندان سے تعلُق رکھتا تھا. یہ کیسی دِلچَسپ بات ہے کہ یوُسُف گلیل کے ایک چھوٹے سے قصبے ناصرت کا ایک معموُلی سا بڑھئی تھا جِسکی رگوں میں شاہی لہوُ دوڑ رہا تھا. اس کُنواری کا نام میری (Mary) تھا۔ یہ ایک دِلچَسپ امر ہے. عِبرانی زبان میں اسے "مِریِم" کہتے ہیں اور یوُنانی زبان میں اسے "ّمیری" کہا جاتا ہے. اِسکے معنی ہیں "سرفراز کی گئی." اس کا تعلق بھی داؤد کے خاندان سے تھا۔ کیونکہ ایک نسب نامہ لوُقا 3ب میں بھی لِکھا ہوُا مِلتا ہے. اگر آپ لوُقا 3ب اور متی 1ب میں لکھے گئے نسب ناموں کا تقابلی جائزہ لیں تو دونوں ہی ایک دوُسرے سے مُختلِف ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ متی 1باب میں لکھا نسب نامہ یوُسُف کا ہے تو اِسکا مطلب یہ ہوا کہ لوُقا 3ب میں لکھا نسب نامہ مریم کا ہے. گو کہ اُس نسب نامہ میں مریم کا نام نہیں لِکھا گیا کیوُنکہ نسب نامہ میں صِرف مردوں کا نام ہی لِکھا جاتا تھا. لیکن ہم یہ وثوُق سے کہہ سکتے ہیں کہ بادشاہت کا حق یسوُع کو اُسکے قانوُنی باپ یعنی یوسُف کیِطرف سے مِلا اور شاہی خون اُسے اُسکی ماں مریم کی طرف سے فراہم ہوُا. سو اِس سے یہ بات ثابِت ہوئی کہ یسوع ہر اعتبار سے شاہی نسل سے تھا ہے۔ یوُسُف اور مریم دونوں ہی داؤد کی نسل سے تھے. اُن دونوں سے یسوُع مسیِح کو شاہانہ وِراثت عطا کی تھی. مریم نے بطور ماں، اپنے خون کے وسیِلے سے اُسے یہ وِراثت دی. اور کیونکہ یسوُع، یوُسُف کا قانونی بیٹا تھا اس لئے بادشاہی کا حق اُسے قانوُنی باپ کی طرف سے بھی حاصِل تھا. سو وہ الہٰی پیامبر اس لڑکی کے پاس آیا جسے الہٰی طور پر چنا گیا تھا. خُدا کی طرف سے دیا گیا پیغام کُچھ یوُں تھا. 28آیت میں لکھا ہے "اور فرِشتہ نے اُس کے پاس اندر آ کر کہا..." اب ظاہر ہے کہ مریم اُس وقت اپنے گھر میں وہی کام کر رہی ہوگی جو 12-13سال کی عُمر کی لڑکیِاں کرتی ہیں یعنی گھریلو کام کاج، شاید وہ کھانا پکا رہی ہو. بظاہر اُس وقت اُسکے ساتھ گھر پر کوئی اور موجوُد نہیں تھا. اور جبرائیل گھر میں داخِل ہو کر کہتا ہے "سلام تُجھ کو جِس پر فضل ہُؤا ہے! خُداوند تیرے ساتھ ہے۔" مُجھے یقیِن ہے کہ مریم کو یہ معلوُم تھا کہ اس سے جو ہمکلام ہے یہ اِنسان نہیں ہے کیونکہ اُس نے کبھی بھی ایسا اِنسان نہیں دیکھا تھا. یہ نوجوان لڑکی اُس مافوق الفطرت ہستی کی بات سُنتی ہے جو اُسکے ساتھ اِنسانی اور قابِلِ سماعَت آواز میں مُخاطِب تھی. "سلام تُجھ کو جِس پر فضل ہُؤا ہے! خُداوند تیرے ساتھ ہے۔" رومَن کیتھولِک کلیسیاء اِسکا ترجُمہ یوُں کرتے ہیں کہ "سلام اے مریِم پُر فضل" یہ چوتھی صدی کے لاطینی ترجمہ سے لی گئی عبارت ہے. "سلام اے مریم پُرفضل" یہاں پر ایک بہت بڑی غلطی یہ ہے کہ مریم کو فضل سے بھرا ہوا تصَوُر کیا جاتا ہے اور یہ بھی کہ مریم لوگوں پر فضل بھی کرتی ہے. رومن کیتھولک کلیسیاء کا ماننا ہے کہ مریم پُر فضل ہے اِس سبب سے وہ اوروں پر بھی فضل کر سکتی ہے. یہ رومَن کیتھولِک کلیسیاء کی بہت بڑی غلطی ہے کہ وہ مریم کو فضل کرنے والی سمجھتے ہیں. لیکِن فرِشتے نے ایسا کُچھ بھی نہیں کہا تھا. مریِم فضل کرنے والی نہیں تھی بلکہ فضل پانے والی تھی."سلام تُجھ کو جِس پر فضل ہُؤا ہے! خُداوند تیرے ساتھ ہے۔" یعنی خُدا کی طرف سے تُجھ پر فضل ہوا ہے. یہاں پر مریم کے لئے کوئی تعریِفی کلِمات ادا نہیں کہے گئے. یہاں پر ایسا نہیں لِکھا کہ "اُس کُنواری کا نام مریم تھا، وہ خُدا ترس اور راستباز لڑکی تھی اور خُدا سے اپنے سارے دِل، اپنی ساری جان اپنی ساری عقل اور اپنی ساری طاقت سے پیار کرتی تھی اور خُداوند کی بدل و جان خِدمت کرتی تھی." یہاں پر ایسا کُچھ نہیں لِکھا گیا. وہاں پر تو بس یہ لِکھا ہے کہ "مریم تُجھے چُن لِیا گیا ہے." اسکے عِلاوہ ہمیں اُس سے مُتعلِق کُچھ بھی معلوُم نہیں ہے. ہمیں اُسکی زِندگی کے بارے میں کُچھ بھی نہیں پتہ. لیکِن ایک بات میں آپکو بتا سکتا ہوُں. وہ کِسی پر فضل نہیں کر سکتی. ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ مریم کے پاس جائیں اور وہ آپ پر فضل کر دے گی کیونکہ اُس کے پاس دینے کے لئے فضل نہیں ہے. وہ تو خُود خُدا سے فضل حاصِل کرنے والوں میں سے ایک ہے. دراصل فرِشتے نے یہ کہا تھا کہ مریم کو خُدا کا اِلٰہی فضل مُفت میں حاصِل ہونے والا تھا. اُس پر خُدا کا بھاری فضل ہوُا تھا کیونکہ یہ وہ فضل تھا جو صِرف خُدا ہی دے سکتا ہے. اور اِس فضل کے حصوُل کی بُنیاد فرِشتے کے کہے ہوئے یہ الفاظ تھے کہ "... خُداوند تیرے ساتھ ہے." ایسے ہی الفاظ جدعوُن سے کہے گئے تھے کہ "اے زبردست سورما خُداوند تیرے ساتھ ہے۔" خُداوند تیرے ساتھ ہے، مریم، تُجھے اِلہٰی فضل حاصِل ہوگا۔ ایسا ہی ہونا لازمی تھا. کیوُنکہ ایسا تو صِرف فضل سے ہی مُمکِن ہو سکتا تھا. جانتے ہیں کیوں؟ اسلیے کہ مریم بھی باقی تمام لوگوں کی طرح اپنی راستبازی اور قابلیت کی بنیاد پر فضل حاصل نہیں کر سکتی تھی. خُداوند تجھ پر اپنا فضل کرنے کو ہے. اور جِن لوگوں پر خُدا کا فضل ہوتا ہے اُنکے لئے ایک ہی اِصطلاح اِستعمال ہوتی ہے اور وہ ہے گُنہگار. اگر وہ گُنہگار نہ ہوں تو اُن کو فضل کی ضروُرت نہ ہو. مریم بابرکت تھی. لیکِن وہ برکت کا منبع نہیں تھی. آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ "اے مریم میرے گُناہ مُعاف کر، مُجھے برکت دے، میرے لئے یسوُع سے سِفارش کر." مریم نہ تو کسی کی دُعا سُن سکتی تھی اور نہ ہی سُن سکتی ہے۔